CPSD - Commentary

کشمیر میں بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی اور تحریک مزاحمت


کشمیر میں گزشتہ چند روز سے بد ترین تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوبی کشمیر جو مزاحمتی تحریک کا مرکز بن چکا ہے، ایک بار پھر خونریز واقعات اور ریاستی تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ یکم اپریل اتوار کے روز بھارتی سیکورٹی فورسز کی بربریت کا یہ دور اس وقت شروع ہوا جب جنوبی کشمیر کے اضلاع اننت ناگ اور شوپیان میں تین مختلف مقامات پر ہونے والے مسلح تصادم میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 17 کشمیری نوجوان اور تین ہندوستانی فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ضلع شوپیان سے ہے۔ جب کہ پیر کے روز ایک 22 سالہ نوجوان عام شہری کو کنگن کے علاقے میں ہلاک کر دیا گیا

حالیہ دنوں کشمیر میں ایک دن میں اتنی زیادہ جانوں کے ضیاع کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ رواں سال 4 مارچ کو ضلع شوپیان میں اسی طرز کے ایک اور واقعہ میں ہندوستان نے 6 عام شہریو ں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ماورائے عدالت قتل کے حالیہ واقعات پر شدید ردعمل ظاہر ہوا۔ ان واقعات کے بعد مزاحمتی تحریک نے شدت اختیار کی جب کہ بھارت نے مظاہرے روکنے کے لئے انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے چھروں والی بندوق اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس سے اب تک 207 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ہندوستان نے مظاہروں کو روکنے کے لیے وادی میں کرفیو نافذ کردیا ، اندرونی ریل سروس اور انٹرنیٹ کو معطل کردیا اورچار روز سے تعلیمی اداروں بند ہیں

مشترکہ مزاحمتی قیادت جس میں سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یا سین ملک شامل ہیں، نے "شوپیان چلو مارچ "کی اپیل کی ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ہندوستان نے اس ریلی کو روکنے کے لئے سید علی گیلانی کو ان کے گھر پر دوبارہ نظر بند کردیا ۔ 88 سالہ گیلانی اس موقع پر جذباتی انداز میں یہ کہتے نظر آئے " مجھے بتاؤ کیوں بند ہیں ہم ۔ مجھے کہا تھا کہ ہم آزاد ہیں ۔ جہاں کہیں جا سکتے ہیں ، دروازہ کھولو – ہم اڑ کر نہیں جا ئیں گے ، دروازہ کھولو، تمہاری جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے ۔ سید علی گیلانی کی نظر بندی کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل وہ پچھلے آٹھ سالوں سے نظر بند تھے۔ جب کہ میر واعظ عمر فاروق کو گرفتار کر لیا گیا اور یاسین ملک کو تین روزہ ریمانڈ پر سری نگر کی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا

بھارت کے غیر جمہوری طرزعمل اور ریاستی دہشت گردی کی ایک اور مثال جنازوں پر پابندی عائد کرنا ہے۔ کئی مقامات پر شہریو ں کو نماز جنازہ اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے سے روکا گیا۔ نظر بند حریت رہنما سید علی گیلانی جو صرف سیاسی نہیں بلکہ مذھبی رہنما بھی ہیں ، ان کو ہلاک شہریو ں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ جنازوں پر پابندی سے نہ صرف کشمیریوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو ر ہے بلکہ اس اقدام سے ہندوستان کے سیکولر ریاست ہونے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس سے پہلے کشمیر میں نماز جمعہ کی ادائیگی روکنے کے لئے مساجد کو مقفل کر نا ہندوستان کے لئے معمول کی بات ہو چکی ہے۔ بھارتی پولیس حسب روایت مرنے والوں کو عسکریت پسند قرار دے رہی ہیں جبکہ 5 عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ۔ تاہم مقامی افراد اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بد ترین مثالیں موجود ہیں ، بتایا جاتا ہے کہ شوپیان میں مسلح کاروائی کے دوران بھارتی سیکورٹی فورسز نے مشتاق احمد ٹھاکر نامی ایک عام شہری کو انسانی ڈھال بنا کر استعمال کیا جس سے اس کی موت واقع ہوئی

اقوام متحدہ ، پاکستان، اور ترکی کی جانب سے ان واقعات اور عام شہریوں کی ہلاکتو ں پر مذمت کا اظہار کیا گیا ۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے فریقین کو مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا اور عام شہریو ں کی ہلاکتو ں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا

تاہم سلامتی کونسل کے صدر برائے ماہ اپریل "گستاؤ میزا کودرا" نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ "سلامتی کونسل میں کشمیر کی صورت حال کے لئے فی الحال کوئی منصوبہ ذیر غور نہیں" ۔ انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ایک اہم موضوع ہے. لیکن اس وقت اس کے حل کے لئے کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ۔ اور نہ ہی فی الوقت ہمارے پروگرام میں (اس موضوع) سے متعلق کوئی منصوبہ بندی شامل ہے

عالمی برادری خصوصا امریکہ کا کوئی مؤثر کردار اس سلسلے میں سامنے نہیں آیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کشمیری لاشیں اٹھا رہے ہیں ۔ سپر پاور امریکہ کی جانب سے کشمیری تحریک آزادی نامی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا بیان آجاتا ہے ۔ مگر عام شہریوں کی ہلاکتوں ، بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا

عام کشمیری یہ سوچتا ہے کیا کشمیری جدوجہد کی کوئی منزل ہے۔ جبکہ مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقوں کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔ 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے جہاں کشمیری تحریک آزادی کی نوعیت میں تبدیلی رونما ہوئی وہیں مسلح جدوجہد اور بھارت کے جبری تسلط سے نجات کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔ کشمیر میں تقریبا دو سال سے جاری "آپریشن آل آؤٹ" کے نتیجے میں 210 عسکریت پسند ہلاک کئے گیے۔ ان میں ٹاپ کمانڈر برہان مظفر وانی کے بعد سبزار بھٹ، ابو دجانہ ، خالد اور ذاکر رحمن لکھوی بھی شامل ہیں ۔ اس کے باوجود کشمیر میں مسلح مزاحمت عوامی مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 200 سے زیادہ نوجوانوں نے عسکری تنظیمو ں میں شمولیت اختیار کی۔ یہ نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ مسلح عسکریت پسند عام لوگوں سے کھلے عام ملتے ہیں، سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ کشمیر میں مایوسی اور نا امیدی کا شکار نوجوانوں کو مقصد حیات مل گیا ہے کشمیری جدوجہد کا سب سے اہم پہلو نفسیاتی پہلو ہے ۔ کشمیری نوجوان لڑکے او ر کم سن بچے اب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حالت جنگ میں ہیں۔ موجودہ نسل کی ہندوستان کے لئے نفرت اور عدم پسندیدگی جو سنہ 1990کی دہائی کے دوران بھارتی فوج کی جانب سے ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کا نتیجہ سمجھی جاتی تھی اس دہائی میں شدت اختیار کرتے ہوئے مسلح مزاحمت کا روپ دھار چکی ہے۔ 22 سالہ برہان وانی سے لے کر پی ایچ ڈی کے طالبعلم منان وانی تک یہ سب نوجوان کشمیری نوجوانوں کے لئے آزادی کا استعارہ اور مزاحمت کی ایک علامت بن کر سامنے آئے ہیں

پاکستان کو داخلی اور سفارتی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے بہتر حکمت عملی وضع کر کے اقدامات اٹھانے چاہئيں۔ بھارت کشمیر کے اصل مسئلہ سے تہی نظر کسی سیاسی حل کے لئے کوشش کی بجائے اسے داخلی امن و امان کا معاملہ قرار دیتا ہے۔ جس کے حل کے لئے وہ طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ جب تک کشمیر کو بین الا‍قوامی مسئلہ تسلیم نہ کیا جائے اس کے حل کی تمام کوشششیں بے کار ہیں ۔بھارت کشمیر میں جاری آپریشن اور شہریو ں کی ہلاکتوں کو اپنی جیت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا بھارت کشمیریوں کے دل جیت پائے گا