کراچی کی سماجی اقتصادی استعداد کی تعمیرنو


کراچی کئی لحاظ سے ملک کے اندرآباد ایک عالم صغیر ہے. جہاں آپ کو تمام مذاہب، قومیتوں اور برادریوں کی نمائندگی ملتی ہے. یہاں اچھے کاروباری منتظمین، کاروباری افراد، ، تاجروں، ٹرانسپورٹروں، ماہرین تعلیم، مزدور اور دیگر پیشہ ور افراد کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہی ماہر افرادی قوت کی کوئی قلت ہے. تو آخر کیا وجہ ہے جو یہ شہراپنی طرف متوجہ نہیں کرتا؟ کراچی منظرنامے کا کوئی مشاق پیروکار شاید ان سوالات کو مختلف پیراۓ میں دیکھے گا کہ : کس طرح یہ شہر آزمائشوں کا سامنا کرنے کےباوجود اپنی بقا اور ترقی کی منازل طے کرنے کی جدوجہد میں کامیاب رہا ہے۔

قبل اس کے کہ کراچی کے سماجی-اقتصادی تحریک کو دوبارہ بنانا کرنے کے معاملے پر بات ہو، یہ دھیان میں رکھنا ضروری ہے کے کہ شہر کن حالات سے گزرا ، اور گزررہا ہے اور اس کی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹیں کیا ہیں. تقسیم کے وقت، کراچی ایک قدرتی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ ایک فروغ پزیر شہر تھا. بندرگاہ انیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ کی طرف سے پنجابی کپاس کی برآمد میں سہولت فراہم کرنے کے لئے اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب اجناس کی عالمی سپلائی امریکی خانہ جنگی کی وجہ سے رک گئی تھی ۔ ریلوے نیٹ ورک برطانیہ نے ھی قائم کیا تھا، جوگودیوں تک لے جاتا تھا جہاں سے کپاس کو کرینوں کے ذریعے جہازوں پر براہ راست لادا جا سکتا۔

یہ آج بھی ایک سستا طریقہ ہے،مگر ایک بار پھر یہ شہر کے جمود کی علامت ہے کہ شاید ہی کبھی بعدمیں اسے استعمال کیا گیا ہو. تاہم میں نے ستر کی دھائی کے وسط میں اسے فعال دیکھا تھا، لیکن صرف جہازوں سے گولہ بارود اتارنے اور چڑھانے کے لئے. شہر میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی موجود ہے، ملک کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ، جوکبھی بہت سی غیر ملکی ایئر لائنز کے لئے باقاعدہ پٹ سٹاپ ہوا کرتا تھا ؛مقام افسوس ہے کہ اس کی یہ اعزازی حیثیت دبئی اور اس کے بعد کئی دوسرے ہوائی اڈوں کوسونپ دی گئی۔

کراچی میں کامیابی کے لیے سب کچھ تھا اور پھر بھی ایک حیات افروز مدت کے بعد یہ شہر آہستہ اہستہ رو بہ زوال ہو گیا. مسئلہ یہ تھا کہ شہرکا اپنا ایک خاص مزاج ہے، جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ سیاسی مخالفین کے بغض وعناد کا نشانہ بنا رہا . خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب یہ ملک کے دارالحکومت کی حیثیت سے محروم ہوا ۔ 1971ء کے بعد نیشنلائزیشن کی پالیسی ایک کاری ضرب ثابت ہوئی جسے اپنانے کے بعد شہر کی کاروباری اشرافیہ کوغیر اہم قرار دے دیا گیا اورتمام انتظام نا اہل بیوروکریٹ کے سپرد کردیا گيا . منفرد کوٹہ سسٹم متعارف کروایا گیا جسے شہریوں کے لئے عارضی گولفنگ ہینڈیکیپ کے طرح پیش کیا گيا تاکہ دیہی علاقوں کوان کے برابر لایا جاسکے. مسئلہ پھر وہی تھا کہ چونکہ یہ ایک سیاسی چال تھی، برابری لانے کے عمل پرمحنت صرف نہیں کی گئی اور نظام کی تجدید لاحاصل کو برقرار رکھا گیا. 1843 میں میانی کی تاریخی جنگ کے بعد جب کولاچی کا قصبہ برطانیہ کے ساتھ ملحق کیا گیا تو، میٹھادر اورکھارادر کے علاقے کو شہر کا مرکز بنایا گیا تھا۔

تقسیم کے وقت شہر کی آبادی 400،000 تھی ، غیر منقسم بھارت، بنگلہ دیش، برما، ایران، افغانستان اورحتی کہ ملک کے کونے کونے سے جوق در جوق نقل مکانی کر کے آنے والوں کے باعث یہ پھیلتی گئی ، بعد میں فاٹا سے آنے والوں نے بھی اس تعداد میں نمایاں اضافہ کیا . دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ شہر پولینڈ سے آنے والے پناہ گزینوں اور وسطی ایشیا، سری لنکا اور فلپائن کے ملازمت کے متلاشیوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا. بڑی تعداد میں ذریعہ معاش کی تلاش میں آئے ان گروہوں نےاپنی کچی بستیاں بنا لی جس نے شہر کی منصوبہ بندی اورانتظامی اہلیت کوبری طرح دھچکا دیا۔اس کے باوجود، ساٹھ کی دہائی کا کراچی ایک بہت مختلف جگہ، پرسکون مگر ہلچل سے بھرپور اور ولولہ انگیز تفریحات شبانه کے ساتھ ابھی تک فعال تھا۔ لوگ شائستہ تھے، ٹریفک بند روڈ پر چلنے والی ایک ٹرام لائن کے ساتھ منظم تھا، گلیاں صاف تھی اور کوئی وال چاکنگ نہ ہی کوئی غیر اخلاقی طرزعمل نظر آتا تھا،

اگر میں شہر کی بدترین اورغیر محتاط طریقے سےہوئی ناقابل تلافی تبدیلی کےعمل کو زمانی ترتیب دوں تو یہ وہ وقت ہو سکتا ہے جب مشرقی ونگ وفاق سے الگ ہوا. کئی عوامل جیسے کہ تباہ کن جنگ کے تناظر میں اچانک پیدا ہونے والا افراط زر ، روز بروز بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور سب سے اہم، شہرکے پیش کردہ مواقع یہاں لوگوں کی کے لۓ کشش کا باعث بنے۔ سست رفتاری سے چلنے والی کھٹارہ عوامی بسوں کی جگہ تیزترین چلنے والی منی بسوں عام اصطلاح میں "ییلوڈیولز" نے لے لی .جب ہر طرف بہت زیادہ تعمیراتی اور صنعتی کام ہونے لگا تو شہر کی اصل ہی مسخ ہوگئی. وال چاکنگ، گندگی اور لسانی تنازعات کے مظاہر شہر کے منظر پر ابھرنے لگے۔

ہم تقسیم کے بعد شہر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک سبق بہت واضح ملتا ہےکہ شہر کی تمام تر کامیابی اس کے باسیوں کی وجہ سے ہے اورتمام مسائل کا باعث سیاسی ریشہ دوانیاں ہیں. عوامی قوت مدافعت نے سخت ترین مصیبتوں کا ڈٹ کر جواب دیا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اس شہر نے کافی مشکل وقت جھیلا ہے. 1980 کی دہائی کے وسط سے 1990 کی دہائی کے وسط تک کا درمیانی وقفہ وہ بدترین مدت تھی جب شہر نسلی فسادات کی آگ میں راکھ ہو گیا ، تبھی اس کے ساتھ ہی انتہا پسند ملاؤں کے ذریعے فرقہ وارانہ تشدد کا پروگرام مرتب کیا گیا جو اس مقصد کے لئے ہی اکھاڑے میں اترے تھے۔

میرے خیال میں، کہنے کو کراچی کی سب سے بڑی طاقت، یعنی اس شہر کا تنوع، اس کی خوشحالی اور وسیع مواقع کی دستیابی ہی اس کی سب سے بڑی مجبوری بن گئے ہیں۔ یہی تنوع مفادات کے حصول کے لئےنسلی تفوق کی لڑائیوں اورمنظم انداز میں شیعہ پیشہ ور افراد کے قتل پر منتج ہوا. اس کی خوشحالی استحصال کے کلچر اور اغوا برائے تاوان کے رجحان کا باعث بن گئی. اس کے وسائل طاقتور کی طرف سے ایک دھینگامشتی کا باعث بن گئے کہ ان کے اپنے لوگ نفع بخش حکومتی اداروں میں ملازم ہوں ، یہاں تک کہ یہ ان اداروں کے لئے خرابی کا باعث بنا. حقیقت یہ ہے کہ اس جنون لا ینفک کے باوجود شہر کراچی کا پھلنا پھولنا ، ملک کی 20٪سے زائد آمدنی اور اس کے ٹیکس رسیدوں کا 40٪ دینے میں کامیاب رہنا تعجب کے لئے کم نہیں ہے.

لیکن تعمیر نو کے مدعا پر جانے سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذھن نشیں کرنی چاہۓ کہ شہر طویل عرصہ سے اختیارات کے فقدان کے مسئلے کا شکار ہے. لہذا ہم دیکھ سکتے صرف دو طبقے تھے جو استحصال کرنے والے تھے، وہ بڑی تعداد میں تھے، اور استحصال کا شکار، وہ بھی جم غفیر تھا. سرکاری طور پر، کچھ امید کی کرنیں د کھائی دیتی ہیں. سی پی ایل سی کی تنظیم ان میں سے ایک ہے جس کے قیام سے پولیس عوام رابطے میں اضافہ کے ساتھ ساتھ چوری شدہ گاڑیوں کی بازیابی کی شرح میں بہتری اور اغوا کار گروہوں کو پکڑنا جیسے معاملات میں بہتری دیکھی گئی . اس صدی کے اختتام پر تشدد پر ابھارنے والے انتہا پسند مذہبی اشتہارات میں کمی ایک اور اہم اقدام تھا. اب تک کی سب سے بڑی کامیابی انٹیلی جنس اور رینجرز کی قیادت میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ گروہوں کی خلاف آپریشن ہے جس کے باعث شہر میں معمول کے حالات کی ایک جھلک نظر آنے لگی ہے. تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد ااس آپریشن کے کامیاب ہونے کا سبب یہ تھا کیونکہ اسے باقی حربوں کے برعکس غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا. اب توجہ سٹریٹ کرائم کو روکنے پر دینا چاہئے، جس میں کمی کے کوئی آثار نظرنہیں آتے۔

تاہم یہ واضح ہے کہ شہر تنظیمی اور انتظامی مسائل سےمسلسل متاثررہتا ہے، جن کو حل کرنے کے لۓ ریاست نے ابھی تک زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی. سول سوسائٹی کو راستہ دکھانے کا بار اپنے کندھوں پر لینا ہوگا. تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، ایمبولینسیں، غریب اور پناہ گزینوں کے لئے خوراک اور پناہ گاہ کے جیسی ذمہ داریاں کا ایک بڑا حصہ، پہلے ہی مخیر حضرات اور این جی او نے اپنے اوپر لے رکھا ہے. ایدھی، چھیپا، سیلانی اور امن فاؤنڈیشن کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. شہر میں شہری حقوق کے لئے سرگرم کارکنوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے.آنجہانی اردیشیر کاؤسجی اور عارف حسن جیسے لوگوں نے اس شہر کی بہت خدمت کی ہے، وہ شہر کی منصوبہ سازی کے عمل کو معقول بنیادوں پر استوار دیکھنا چاہتے تھے. اگر شہر کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو تعلیم کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے تاکہ اس کے شہریوں کو اپنے شہری حقوق کو سمجھنے میں مدد ملے اور وہ ان کے لۓ متحرک ہو سکیں. تعلیمی نیٹ ورک صرف عوامی اور نجی اشتراک کے ذریعہ یا آؤٹ سورسنگ کے ذریعے وسیع ہوسکتا ہے جیسے کہ پنجاب میں اسے کامیابی سے اپنایا گیا . سیاسی منشاء کو دیکھتے ہوئے ، اس مقصد کے لئے بین الاقوامی ڈونرز سے فنڈز کی بھی کوئی کمی نہیں ہوگی.

حکمرانی ایک بڑے بلیک ہول کی طرح ہے. صوبائی حکومت بہت دیر سے لوکل باڈیز کے سے بہت ہچکچا رہی تھی، لیکن جب انتخابات کروانے کے لئے دباؤ بڑھا تو منتخب میئر کو فنڈز اور اختیارات سے محروم کر دیا گیا. اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تمام بڑے شہروں کو منتخب میئرز مکمل مالی اور انتظامی طاقت کے ساتھ چلاتے ہیں یہ کوئی بہت معقول صورتحال نہیں ہے . طبعی ماحول ہمیشہ توجہ کا متقاضی رہا ہے. جب بھی اختیارات کی کمی واضح ہو تی ہے تو مسائل بڑھنے لگتے ہیں. تقریبا 400 ملین گیلن آلودہ پانی بنا صاف کئے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے اور کوئی اس پر فکرمند نہیں ہوتا. سمندر ملیر کے دروازے پر دستک دے رہا ہےجو شہربھر کے لئے خوراک کا گڑھ ہے مگر کوئی بھی حرکت میں نہیں آتا ہے. بن قاسم میں 1320 میگاواٹ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کا قیام بھی بری خبر ہے. بہت سے علاقوں میں پانی اور سیوریج لائنیں نہں بچھائی جا سکیں. کچرا سالوں سے صاف نہیں کیا گیا. ٹھوس فضلہ ضائع کرنے والا ایک بھی پلانٹ کام نہیں کر رہا ہے. بہت سے علاقوں میں، گندگی کھلے نالوں میں جاتی ہے، کلفٹن میں جسے خوش بانی سے نہر کہا جاتا ہے، جو خود تجارزات کے باعث بندش کا شکار ہیں. کراچی بندرگاہ میں زہریلے مواد کی بلند سطح بندرگاہ میں بحری جہازوں اور لنگرگاہوں کے انتظام کے مسائل پیدا کرتی ہے.

افراد اور معاشرے اس وقت کچھ خاص نہیں کر سکتے جب پورے شہر کے ساتھ ساتھ اس سے ملحقہ سمندر کچرے کا ایک بڑا ڈھیر بن جاۓ. فضلہ تلف کرںےکے جدید نظام کا قیام اوربڑی تعداد میں ری سائیکلنگ کے لۓپودے لگانا وقت کی ضرورت ہے. تمام فضلہ بشمول گھریلو، ہسپتالوں کا، تیل کی مصنوعات اور صنعتی آلودہ پانی ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے. سرکاری سطح پراس عدم توجہی کو محسوس کیا جا سکتا ہے. نوکر شاہی کا نام لۓ بغیر اور شرمندگی دلاۓ بنا ، کمیونٹیز کو مل کرجو کچھ بھی ہو سکتا کرنا چاہئے ۔ مسٹر فکس اٹ کے نام سے جانے گۓ عالمگیر خان اس راستے کے سر خیل ہیں. کچھ دوسرے ایسے بھی ہیں جوتبدیلی لانے کی کوشش میں شہر کی گندی دیواروں کو پینٹ کرتے ہیں یا ساحل سمندر کی صفائی کا بار اٹھاتے ہیں. اورنگی پائلٹ منصوبے اپنی صفائی، صحت کی دیکھ بھال، ہاؤسنگ اور مائکرو فائنانس کی ضروریات کو خود حل کرنے والے مفلس برادری کی بہترین ممکن مثال یہ ہے. یہ منصوبہ ایک صاحب بصیرت ڈاکٹر عبدالحمید خان نے شروع کیا ، اس میں مرحومہ پروین رحمان کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جنہوں نے نہ صرف اس منصوبے کو آگے بڑھایا بلکہ قبضہ مافیا سے دھمکیاں ملنے کے باوجود ڈٹی رہیں۔

سرسبز ماحول کے علاوہ جیسا کہ پہلے بات ہوئی، سماجی اور اقتصادی حیات نو کے لئے دیگر لازمی شرائط ٹریفک کی بھیڑمیں کمی اور ایک سازگار ماحول کی تخلیق ہے. اگرچہ فلائی اووروں اور انڈر پاسوں کی صورت میں بھیڑ کو کم کرنے کی طفلانہ کوششیں کی جا رہی ہيں، مگر جو اہم ہیں جیسے کہ ماس ٹرانزٹ اقدامات وہ ناقابل توجیہ غیر معینہ مدت کے لۓ مؤخر کر دئے گۓ ہیں. کراچی سرکلر ریلوے جو ہمیشہ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا لیکن ظاہری طور پر بد انتظامی کے باعث خسارے میں ہے. مگر بدانتظامی کی اصلاح کے بجائے اسے مکمل بند کرنے کا آسان راستہ لیا گیا. جایکا لون ہمیشہ قابل دسترس تھا یہاں تک کہ جاپان نے عدم دلچسپی ظاہر کردی. سی پیک کے تحت کےسی آر کی بحالی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، لیکن مرکز اورصوبے میں جاری کشمکش سے دوبارہ اس منصوبے کے رکنے کا خطرہ ہے. کراچی کو ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم کے بغیر ہی اکلوتا بڑا شہر ہونے کے اعزاز حاصل ہے.

چند دہائیوں سے تعطل کا شکار تعمیراتی کام بالآخر سرجانی شہر سے ٹاور تک پہنچنے والی ایک لین میں شروع کیا گیا ہے. شہروں کے مختلف راستوں پر چلنے والے بسوں کی تعداد پریشانی کی حد تک ناکافی ہے، جس کے نتیجے میں افرا تفری میں اضافہ کرتے تیزرفتار موٹر سائیکلوں کی فروخت تیزتر ہوگئی ہے. بندرگاہ کو شمالی بائی پاس سے براہ راست منسلک کرنے کے لۓ ایکسپریس وے کی تعمیر پرسنجیدگی سے غور کیا جا رہاہے. یہ، کیمیاری سے بن قاسم میں واقع نئے ذوالفقار آباد ٹرمینل تک تیل کے ٹینکروں اور قافلوں کا طویل فاصلہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے ازدہام کو بھی کافی کم کرے گی. اس سمت میں ابھی تک کے سب سے اہم اقدام میں ، تمام کنٹینر والی ٹریفک کو، براہ راست جہاز کے لنگر سے اندرونی ٹرمینلزتک ریلوے نیٹ ورک پر ری ڈائریکٹ کرنا ہے، جس کے باعث اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔

کراچی کے تاجروں اور کاروباری حضرات نے باربار یہ دکھایا ہے کیا کہ اس طرح کےغیرمستحکم کاروباری ماحول میں اپنی بقا کے لئے کیا کرنا ہے. معیشت کے پنپنے کے لئے تمام ترضرورت اب اس بات کی ہے کہ ، نوکرشاہی کی پروردہ پابندیوں کم ہوں ، مقابلہ کی شرح پر سہولیات کی دستیابی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے . تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی شعبہ کے کاروباری اداروں کو اس کے برعکس فعال رہنے کے لئے وسیع ریاستی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس عمل میں نجی شعبہ یکساں میدان عمل سے محروم ہے

ایسے وسیع میٹروپولس میں عوامی مقامات فی الواقع نہ ہونے کے برابر ہیں. عام طور پر لوگ موسم گرما کی گرمی کو شکست دینے کے لئے ساحل کا رخ کرتے ہیں. معیاری ڈراموں کے لئے، صرف آرٹس کونسل یا ناپا آڈیٹوریم ہی میسر ہیں. مثالی صورت یہ ہوگی کہ ہر جگہ کے لئے اپنے تفریحی مقامات اور کمیونٹی مراکز ہو ں تاکہ طویل فاصلاتی سفر سے بچا جائے. ایک ہی طریقہ کار جس سے گنجان آباد تعمیرشدہ علاقوں میں اسے ممکن بنایا جا سکے ہے کہ غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی زمین دوبارہ حاصل کی جائے، خواہ وہ ناجائز تجاوزات ہوں یا چائنہ کٹنگ . امید کی کرنیں ہیں کہ اس طرح کے کلیئرنس آپریشن پر غور کیا جارہا ہے. اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شہر کسی بھی معیارکے مطابق بہت بڑا ہے اور اس کے چیلنج بھی اتنے ہی پیچیدہ ہیں

یہاں کی آبادی 20 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور جاری میگا سکیمیں جیسے ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاؤن علاوہ ازیں جن کی منصوبہ بندی جاری ہے جیسے ذوالفقارآباد اور کیٹی بندر ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں اسے دنیا کے گنجان ترین آبادی والے ممالک کی اعلی درجہ بندی میں آسانی سے پہنچا سکتے ہیں. سرکاری اعدادوشمار میں بدقسمتی سے ان کو کسی کھاتے میں نہیں رکھا جاتا جو شناختی کارڈ نہں رکھتے اور اسی طرح نہ ہی وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنا مستقل پتہ اندرون ملک میں اپنی سکونت کی جگہ کے طور پردرج کروا رکھا ہے . بہت سی دوردراز کچی آبادیوں کو بھی لگتا ہے کہ چھوڑ دیا گیا ہے. شہرجن متعدد پریشان کن مسائل سے دوچار ہے ان کو حل کرنا چاہتا ہے تو اعداد وشمار کی درست تالیف بہت ضروری ہے

شہرنے انحطاط پزیر بنیادی ڈھانچے اور سول سروسز کے باوجود نہ صرف اپنا شگفتہ پہلو برقرار رکھا بلکہ روشنیوں کے شہر کے طور پر اپنی پہچان بھی قائم رکھی. برے حالات کی مدافعت اور سنبھلنا اپنی جگہ ہے، لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ شہر کو اسکی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لئے، ریاست کو اپنی ذمہ داریاں تسلیم کرنی ہوں گی. کراچی کو کیاچاہئے ، وہی جو تمام بڑے شہروں کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے یعنی صاف ستھرا ماحول، تحفظ، عوامی نقل و حمل کا موثر نظام، صحت کے مناسب کی دستیابی ، تعلیمی اور تفریحی سہولیات، عوامی سہولیات، عوام کی ضروریات بہم پہنچانے کے لئے عوامی انتظامیہ اور سازگارتجارتی و سماجی ماحول کی دستیابی . مگریہ سب ممکن بنانے کے لئے ریاست کو اپنی ذمہ داریوں کے لئے قائل ہونا ضروری ہے جنہیں پہلےکبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا



Karachi Silver Lining Socio economics Ethnic factor People power Development Governance